ہفتہ، 29 اپریل، 2023

داستان ايمان فروشوں کی*

0 Comments
 📜 *داستان ایمان فروشوں کی*


🪶 مصنف:- عنایت اللہ التمش

─•═▤ قسط نمبر 94  ▤═•─


سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور کے واقعات پر مشتمل، صلیبی جاسوسوں اور حسن بن صباح کے پیشہ ور قاتلوں کے خلاف لڑی گئی جنگ اور اسلام کی معرکہ آرائیوں پر مشتمل تاریخی ناول۔۔۔


جانباز، جنات اور جذبات

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اور وہ گر پڑا۔ اس کا وہ ساتھی جو ذہنی لحاظ سے ابھی ٹھیک تھا، سرگوشی میں بولا…… ''میں انہیں دیکھ رہا ہوں''۔

''اللہ ہم پر رحم کرے''۔ الناصر نے کہا…… ''ہم دونوں کے بھی دماغ مائوف ہوگئے ہیں۔ ہمیں بھی وہ چیزیں نظر آنے لگی ہیں جو حقیقت میں نہیں ہیں۔ جہنم کے اس ویرانے میں اتنی خوبصورت لڑکیاں نہیں آسکتیں''۔

''اگر ان کا لباس صحرائی خانہ بدوشوں جیسا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ تصور نہیں، حقیقت ہے''…… اس کے ساتھی نے کہا …… ''آگے چلو سائے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ لڑکیاں نہیں، ہمارے ذہنوں کا فتور ہے''۔

''مگر میں ہوش میں ہوں''…… الناصر نے کہا…… ''میں تمہیں پہچان رہا ہوں، تمہاری بات سمجھ گیا ہوں۔ میرا دماغ میرے قابو میں ہے''۔

''میں بھی ہوش میں ہوں''…… اس کے ساتھی نے کہا…… ''اگر ہم حقیقت میں لڑکیاں دیکھ رہے ہیں تو جنات ہوں گے''۔

لڑکیاں اس طرح بے حس وحرکت کھڑی انہیں دیکھ رہی تھیں، جیسے بت ہوں۔ الناصر دلیر آدمی تھا، وہ آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھا۔ لڑکیاں غائب نہ ہوئیں۔ وہ ان سے چار پان قدم دور تھا۔ جب ایک لڑکی نے جو دوسری سے عمر میں کچھ بڑی لگتی تھی، دایاں بازو الناصر کی طرف کیا۔ لڑکی کی مٹھی بند تھی۔ اس نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی آگے کو کر دی۔ الناصر رک گیا۔ اس نے اتنی خوبصورت لڑکیاں پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ سر کی اوڑھنی سے ان کے جو بال شانوں پر پڑے نظر آتے تھے، وہ باریک ریشم کے تار لگتے تھے۔ دونوں لڑکیوں کمی آنکھوں کا رنگ بھی دلکش اور عجیب تھا۔ آنکھیں ہیروں کی طرح چمکتی تھیں۔

''تم سپاہی ہو''…… بڑی لڑکی نے کہا…… ''کس کے سپاہی ہو؟''

''سب کچھ بتائوں گا''…… الناصر نے کہا…… ''مجھے یہ بتا دو کہ تم صحرا کا دھوکہ ہو یا جنات کی مخلوق میں سے ہو''۔

''ہم جو کچھ بھی ہیں، تم بتائو کون ہو اور ادھر کیا کرنے آئے ہو''…… لڑکی نے پوچھا…… ''ہم صحرا کا فریب نہیں۔ تم ہمیں دیکھ رہے ہو، ہم تمہیں دیکھ رہی ہیں''۔

''ہم سلطان صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار سپاہی ہیں''…… الناصر نے کہا…… ''راستہ بھول کر ادھر آنکلے ہیں، اگر تم جنات میں سے ہو تو تمہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کا واسطہ، میرے ان ساتھیوں کو پانی پلا دو اور اس کے عوض میری جان لے لو، یہ میری ذمہ داری میں ہیں''۔

''اپنے ہتھیار ہمارے آگے پھینک دو''…… لڑکی نے اپنا بازو نیچے کرتے ہوئے کہا…… ''حضرت سلیمان علیہ السلام کے نام پر مانگی ہوئی چیز سے ہم انکار نہیں کرسکتے۔ اپنے ساتھیوں کو سائے میں لے آئو''۔

الناصر نے اپنے وجود میں ایک لہر دوڑتی محسوس کی، جیسے سر سے داخل ہوئی اور پائوں سے نکل گئی ہو۔ وہ انسانوں کا مقابلہ کرنے والا جانباز تھا۔ اس کے شب خون اس کے ساتھیوں کو حیران کردیا کرتے تھے مگر ان لڑکیوں کے آگے وہ بزدل بن گیا۔ اس کے دل پر ایسے خوف کی گرفت تھی جو اس نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ وہ جنات کی کہانیاں سنتا رہا تھا، جنات سے کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ اسے ہر لمحہ توقع تھی کہ یہ دو لڑکیاں اور دو گھوڑے غائب ہوجائیں گے یا شکلیں بدل لیں گے۔ ان کے خلاف وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ وہ بے بس اور مجبور ہوگیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ سائے میں چلیں۔ ان میں سے ایک تو بے ہوش پڑا تھا۔ اسے گھسیٹ کر سائے میں لے گئے۔

''اپنے متعلق بتائو تم کیا کرکے آئے ہو؟''…… لڑکی نے پوچھا۔

''پانی پلائو''…… الناصر نے التجا کی…… ''سنا ہے جنات ہر چیز حاضر کردیا کرتے ہیں''۔

''گھوڑوں کے ساتھ مشکیزے ہیں''…… لڑکی نے کہا…… ''ایک کھول لو''۔

الناصر نے ایک گھوڑے کی زین کے ساتھ بندھا ہوا مشکیزہ کھولا۔ پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے سب سے پہلے بے ہوش ساتھی کے منہ میں پانی ٹپکایا۔ اس نے آنکھ کھولی اور اٹھ بیٹھا۔ الناصر نے مشکیزہ اس کے منہ سے لگا دیا لیکن اسے زیادہ پانی نہ پینے دیا۔ باری باری سب نے پانی پی لیا۔ الناصر کا دماغ صاف ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ یہ لڑکیاں تصور یا واہمہ ہوتا تو دماغ میں جان آجانے سے یہ واہمہ غائب ہوجاتا لیکن لڑکیاں وہاں موجود تھیں اور سب سے بڑی حقیقت یہ تھی کہ اس نے پانی پیا تھا اگر پانی محض تصور ہوتا تو اس سے اس کے جسم میں تازگی نہ آتی۔ اس نے لڑکیوں کو ایک بار پھر دیکھا اور بڑی غور سے دیکھا۔ اب وہ اسے اور زیادہ حسین نظر آئیں، وہ یقینا انسان نہیں تھیں۔

: الناصر کی ذہنی، جذباتی اور جسمانی کیفیت یہ تھی کہ اسے اپنے اوپر کوئی اختیار نہیں رہا تھا۔ وہ محسوس کررہا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے سوچنے کے قابل نہیں رہا۔ اس کے ساتھیوں کے چہروں پر زندگی عود کر آئی تھی۔ یہ اس تھوڑے سے پانی کا کرشمہ تھا جو ان کے جسموں میں گیا تھا مگر الناصر کی طرح ان پر بھی خوف طاری ہوگیا تھا۔ لڑکیاں انہیں خاموشی سے دیکھ رہی تھیں۔ باہر کی دنیا جل رہی تھی، زمین ایسے شعلے اگل رہی تھی جو محسوس ہوتے تھے، نظر نہیں آتے تھے لیکن جہاں یہ لوگ بیٹھے تھے، وہ ان شعلوں سے محفوظ تھے۔ اوپر ریتلی چٹان کی چھت تھی اور جگہ خاصی کشادہ تھی۔

بڑی لڑکی نے بازو الناصر کی طرف بڑھایا۔ درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی آگے کرکے بازو کو گھوڑوں کی طرف گھما کر کہا…… ''وہ تھیلا کھول لائو اور اپنے ساتھیوں کو دو''۔

الناصر ایسے انداز سے گھوڑے کی زین کے ساتھ بندھا ہوا چمڑے کا تھیلا کھول لایا جیسے اس نے یہ حرکت کسی جادو کے زیراثر کی ہو۔ اس نے تھیلا کھولا تو اس میں کھجوروں کے علاوہ کھانے کی کچھ ایسی چیزیں پڑی تھیں جو صرف امیر لوگ کھایا کرتے تھے۔ خشک گوشت بھی تھا جو کھانے کے قابل تھا۔ اس نے لڑکیوں کو دیکھا۔ بڑی لڑکی نے کہا…… ''کھائو''…… الناصر نے یہ چیزیں اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردیں۔ ان سب کے پیٹ پیٹھ سے لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے کھانا شروع کردیا۔ کھانا مقدار کے لحاظ سے تھوڑا تھا جو بظاہر ایک آدمی کے لیے کافی تھا لیکن چارو سیر ہوگئے۔ انہیں ماحول نکھرا ہوا دکھائی دینے لگا۔ لڑکیوں کا حسن پہلے سے کہیں زیادہ پرکشش اور پراسرار ہوگیا۔

''تم ہمارے ساتھ کیا سلوک کرو گی؟''…… الناصر نے بڑی لڑکی سے کہا…… ''جن اور انسان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ تم آگ ہو، ہم مٹی اور پانی ہیں۔ ہم سب کا خالق خدا ہے۔ ہمیں اپنے خالق کی مخلوق سمجھ کر ہم پر رحم کرو۔ ہمیں ترکمان کے راستے پر ڈال دو۔ تم چاہو تو پلک جھپکتے ہمیں ترکمان پہنچا سکتے ہو''۔

الناصر نے اسے اپنی تمام کارگزاری سنا دی۔ اس کی ٹولی نے جس دلیری سے شب خون مارے اور جو نقصان کیا تھا، وہ پوری تفصیل سے سنایا، پھر یہ بتایا کہ وہ کس طرح واپسی کے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔

''تم اپنے سپاہیوں سے بہتر سپاہی معلوم ہوتے ہو''…… لڑکی نے کہا…… ''کیا تمہاری فوج کا ہر ایک سپاہی یہ کام کرسکتا ہے، جو تم نے کیا ہے؟''

''نہیں'' الناصر نے جواب دیا…… ''ہم چاروں کو تم انسان نہ سمجھو۔ ہمیں استادوں نے جو تربیت دی ہے، وہ ہر ایک سپاہی برداشت نہیں کرسکتا۔ ہم صحرائی ہرن کی طرح دوڑ سکتے ہیں۔ عقاب کی طرح ہماری آنکھیں بہت دور تک دیکھ سکتی ہیں اور ہم چیتے کی طرح حملہ کرتے ہیں۔ ہم میں سے کسی نے بھی چیتا نہیں دیکھا۔ استادوں نے بتایا تھا کہ چیتا کیا ہوتا ہے اور وہ کس طرح حملہ کرتا ہے۔ اس جسمانی پھرتی کے علاوہ ہمارے دماغ دوسرے سپاہیوں کی نسبت زیادہ اچھی طرح سوچ سکتے ہیں۔ ہمیں استادوں نے یہ ہنر بھی سکھایا ہے کہ دشمن کے ملک میں جاکر فوجی راز کس طرح حاصل کیے جاتے ہیں۔ ہم بھیس بدل لیتے ہیں، آواز بدل لیتے ہیں، اندھے بن سکتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو ہم آنسو بہا سکتے ہیں اور جب پکڑے جانے کا خطرہ ہو تو ہم اپنی زندگی سے دستبردار ہوکر لڑتے اور نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم قید نہیں ہوتے، شہید ہوا کرتے ہیں''۔

''اگر ہم جن نہ ہوتی تو تم ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتے؟''…… لڑکی نے پوچھا۔

''تم یقین نہیں کرو گی''…… الناصر نے کہا…… ''ہم وہ پتھر ہیں جنہیں عورت کا حسن توڑ نہیں سکتا۔ مجھے یقین ہو جائے کہ تم انسان ہو اور پتہ چل جائے کہ راستہ سے بھٹک گئی ہو تو تم دونوں کو اپنی پناہ میں لے لوں گا اور اپنے ایمان کی طرح قیمتی سمجھوں گا مگر تم انسان نہیں ہو، تمہاری حالت بتا رہی ہے کہ تم انسان نہیں ہو۔ تم جیسی لڑکیاں اس جہنم میں نہیں آسکتیں۔ اب میں تم سے التجا کرتا ہوں کہ ہمیں پناہ میں لے لو''۔

''ہم انسانوں کی مخلوق سے نہیں''…… لڑکی نے کہا…… ''ہمیں معلوم تھا کہ تم کیا کررہے ہو، ہمیں معلوم تھا کہ تم راستے سے بھٹک گئے ہو، اگر تم گناہ گار ہوتے تو جس صحرا سے تم گزر کر آئے ہو، وہ تمہارا خون پی جاتا اور تمہارے جسم کے گوشت کو ریت بنا کر تمہاری ہڈیاں ننگی کردیتا۔ اس صحرا نے بھٹکے ہوئے گناہ گاروں کو کبھی نہیں بخشا۔ ہم دونوں تمہارے ساتھ تھیں۔ تمہیں جو صعوبتیں برداشت کرنی پڑی ہیں وہ اس لیے تم پر ڈالی گئی ہیں کہ تم خدا کو بھول نہ سکو اور تمہارے دل سے گناہ کا خیال اور ارادہ نکل جائے۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہم جیسی خوبصورت لڑکیوں کو دیکھ کر تم بھوک اور پیاس کو بھول جائو گے اور تمہارے دل پر شیطان کا قبضہ ہوجائے گا''۔

''تم ہمارے ساتھ ساتھ کیوں رہیں؟''…… الناصر نے پوچھا۔

''ہمیں اس نے بھیجا ہے جو صحرائوں میں راستہ بھول جانے والے نیک بندوں کو راہ دکھاتا ہے''…… بڑی لڑکی نے کہا…… ''تم پر خدا نے جو رحمت نازل کی ہے، اس کا تم حساب نہیں کرسکتے

…… بڑی لڑکی نے کہا…… ''تم پر خدا نے جو رحمت نازل کی ہے، اس کا تم حساب نہیں کرسکتے۔ اس نے ہمیں کہا تھا کہ مرد نزع کے عالم میں بھی شیطان کے اثر سے آزاد نہیں ہوتا۔ اس ناپاک قبضے سے آزاد کرانے کے لیے خدا نے تمہیں عذاب میں ڈالا ہے پھر ہمیں حکم ملا کہ ان کے سامنے آجائو اور انہیں پناہ میں لے لو…… ہم جانتے تھے کہ تم نے دشمن کو کس طرح اور کتنا نقصان پہنچایا ہے''۔

''پھر مجھ سے کیوں پوچھا تھا؟''…… الناصر نے پوچھا۔

''یہ دیکھنے کے لیے کہ تم کتنا جھوٹ اور کتنا سچ بولتے ہو''…… لڑکی نے کہا…… ''تم سچے ہو''۔

''ہم جھوٹ نہیں بولا کرتے''…… الناصر نے کہا…… ''شب خون مارنے والے خدا کو گواہ بنایا کرتے ہیں۔ اپنی فوج اور اپنے سالاروں کی نظروں سے اوجھل ہوکر ہم اس حقیقت کو دل میں بٹھا لیتے ہیں کہ ہمیں خدا دیکھ رہا ہے۔ ہم خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتے''…… الناصر خاموش ہوگیا اور پوچھا…… ''تم نے میرے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرو گی''۔

''جو ہمیں حکم ملا ہے، اس کے خلاف ہم کچھ نہیں کرسکتے''…… لڑکی نے جواب دیا…… ''ہمارا سلوک برا نہیں ہوگا…… ہم دیکھ رہے ہیں ک تم اب بول نہیں سکتے۔ تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی آنکھیں بند ہورہی ہیں مگر تمہارے دلوں میں جو خوف ہے، وہ تمہیں سونے نہیں دے رہا۔ دل سے خوف نکال دو اور سوجائو''۔

''پھر کیا ہوگا؟''…… الناصر نے پوچھا۔

''جو اللہ کا حکم ہوگا''…… لڑکی نے جواب دیا…… ''ہم تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اگر بھاگنے کی کوشش کرو گے تو ان ریتلے ستونوں کی طرح ستون بن جائو گے۔ تمہیں دور سے یہ ستون نظر آئے ہوں گے۔ ان کے اوپر کوئی چھت نہیں۔ یہ مینار لگتے ہیں، اصل میں انسان ہیں…… انسان تھے۔ ہمیں حکم نہیں کہ تمہیں دکھائوں، اگر حکم ہوتا تو کسی بھی مینار پر تم تلوار کی ضرب لگاتے تو اس میں سے خون پھوٹتا''۔

الناصر اور اس کے ساتھیوں کی آنکھیں خوف سے باہر آنے لگیں۔ ان کی سانسیں رک گئیں۔

''یہ روئے زمین کا جہنم ہے''…… لڑکی نے کہا…… ''ادھر وہی آتا ہے جو راہ سے گمراہ ہوجاتا ہے اور وہ کہ جو بھولے بھٹکے مسافروں کو راستہ دکھاتا ہے اور کسی کو نظر نہیں آیا کرتا، انہیں غزال جیسے خوبصورت جانوروں یا ہم جیسی خوبصورت لڑکیوں کے روپ میں آکر انہیں راہ پر ڈالتا، پانی پلاتا اور انہیں اس دوزخ کی اذیت سے بچا لیتا مگر انسان گناہوں کا اتنا شیدائی ہے کہ غزال کو دیکھتا ہے تو اس پر تیر چلاتا ہے کہ اسے مارے اور اس کا گوشت کھائے اور جب ہم جیسی عورت کو دیکھتا ہے تو اسے تنہا اور مجبور سمجھ کر اسے عیش وعشرت کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اس کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ وہ لڑکی سے کہتا ہے کہ آئو میرے ساتھ، تمہارے ساتھ شادی کروں گا، تم میرے حرم کی ملکہ ہوگی…… ریت اور مٹی کے یہ بے ڈھنگ اور لمبوترے مینار ایسے ہی آدمی تھے، تم ان میں شامل نہیں ہوگے…… سوجائو۔ اگر ہمیں دیکھ کر تمہارے دل میں گناہ انگڑائی لے تو اسے بھی سلا دینا، ورنہ تمہارا انجام یہی ہوگا جو تم دیکھ رہے ہو۔ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ جس لذت کی وہ پیداوار ہے، اسی لذت کا شیدائی ہوکر تباہ ہوتا ہے اور برے برے انجام کو پہنچتا ہے۔ انسان کی اس کمزوری نے قوموں کے نام ونشان مٹان دئیے ہیں''۔

لڑکی کے بولنے کے انداز میں جادو کا سا اثر تھا۔ یہ کسی پہلو اس دنیا کی لڑکی نہیں تھی۔ اس کے سینے میں ایک مقدس پیغام تھا۔ الناصر اور اس کے ساتھیوں پر تقدس طاری ہوگیا اور وہ خود فراموشی کے عالم میں سنتے رہے، پھر وہ اونگھنے لگے اور ایک ایک کرکے لڑھک گئے۔ چاروں گہری نیند سوگئے تو بڑی لڑکی نے چھوٹی لڑکی کی طرف دیکھا۔ دونوں مسکرائیں اور انہوں نے سکون کی لمبی آہ بھری۔ الناصر کو کچھ خبر نہیں تھی کہ جس طرح اس کا مشن کامیاب ہوچکا ہے اسی طرح اس کی فوج ایک ہی ہلے میں اپنے مشن میں کامیاب ہوچکی ہے۔ اتحادی فوج کو سلطان ایوبی بکھیر کر بھگا چکا تھا۔ اتحادی فوج کا سالار اعلیٰ سیف الدین میدان جنگ سے لاپتہ ہوچکا تھا اور اب سلطان ایوبی سیف الدین کے ایک سالار مظفرالدین کا انتظار کررہا تھا۔ اسے خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ اگر مظفرالدین میدان جنگ میں ہوا تو وہ جوابی حملہ ضرور کرے گا۔ سلطان ایوبی کا اندازہ غلط نہیں تھا۔ مظفرالدین وہیں تھا۔ اس کے پاس اس فوج کا چوتھائی حصہ تھا جو سلطان ایوبی کے حملے کی تاب نہ لا کر بھاگ چکی تھی۔ اس چوتھائی حصے کو جنگ میں شریک ہونے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ یہ شکست خوردہ فوج کا محفوظہ تھا جو محفوظ تھا اور سلطان ایوبی اس کی موجودگی سے بے خبر تھا، یہ اس کی چھٹی حس تھی جو اسے بتا رہی تھی کہ خطرہ ابھی موجود ہے۔ اس نے اپنے جاسوسوں کو میدان جنگ کے اردگرد دور دور تک پھیلا دیا تھا تاکہ کسی بھی جگہ کوئی فوج ہو اس کی اطلاع فوراً پہنچائیں۔

وہاں ہر فوجی کے ذہن میں یہی خیال تھا کہ سیف الدین کی فوج مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے اور یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ اس فوج کا کوئی سپاہی یا افسر زندہ موجود ہوگا۔ ان میں سے جو زندہ موجود تھے، وہ سلطان ایوبی کی فوج کی حراست میں جنگی قیدی تھے۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ خطہ ایسا تھا کہ جس کے خدوخال کئی کئی دستوں کو ایک ایک نشیب میں، چٹانوں کے جھرمٹ میں یا جنگل میں چھپا سکتے تھے۔ سلطان ایوبی کے جاسوسی نظام کو یہی دشواری پیش آرہی تھی۔ حالانکہ یہ وہ نظام تھا جو دشمن کے پیٹ میں جاکر راز نکال لایا کرتا تھا۔

مظفرالدین نے میدان جنگ سے دواڑھائی میل دور ایسی جگہ اپنے دستے چھپا رکھے تھے جو اس خطے کا نشیبی علاقہ تھا، وہاں جنگل بھی تھا اور اردگرد چٹانیں بھی۔ وہ اپنے خیمے میں بیٹھا سلطان ایوبی پر حملے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ وہ بہت جلدی میں تھا۔ اس کا ایک نائب سالار خیمے میں داخل ہوا۔ اس کے ساتھ ایک اور آدمی تھی۔

''کوئی نئی خبر ہے؟''…… مظفرالدین نے پوچھا۔

''صلح الدین ایوبی کی فوج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی''…… نائب سالار نے کہا…… ''تفصیل اس سے سن لو، یہ سب کچھ دیکھ آیا ہے''۔

یہ آدمی جاسوس تھا۔ اس نے کہا…… ''صلاح الدین ایوبی کی فوج نے ابھی ہماری اس فوج کا سامان نہیں اٹھایا جو بھاگ گئی ہے۔ زخمیوں کو اٹھالے گئے ہیں۔ لاشیں بھی اٹھالی گئی ہیں، ہماری لاشوں کو بھی وہ اپنی لاشوں کے ساتھ الگ الگ قبروں میں دفن کررہے ہیں''۔

''مجھے ان کی خبر سنائو جو ابھی زندہ ہیں''…… مظفرالدین نے کہا…… ''مرنے والوں کو قبروں میں اترنا ہے، وہ اتر رہے ہیں، کیا ایوبی نے اپنی فوج میں کوئی ردوبدل کیا ہے؟ اس کا دایاں بازو وہیں ہے یا ادھر ادھر ہوگیا ہے؟''

''قابل صد احترام سالار!''…… جاسوس نے کہا…… ''میں سپاہی نہیں، کمان دار ہوں، میں جو خبر دے رہا ہوں، وہ کچھ سوچ اور کچھ سمجھ کر دے رہا ہوں۔ میرا مقصد یہ نہیں کہ آپ کو خوش کروں اور آپ کی خفگی سے ڈروں۔ میرا مقصد بالکل آپ ہی کی طرح یہی ہے کہ سلطان ایوبی کی فتح کو شکست میں بدلا جائے۔ آپ کچھ جلدی میں معلوم ہوتے ہیں، جلدی ضروری کریں، جلد بازی سے بچیں۔ میں جو کہہ رہا ہوں، مجھے کہنے دیں۔ مجھے پابند نہ کریں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کی نظر سلطان ایوبی کے دائیں پہلو پر ہے کیونکہ یہی ہدف آپ کی آسان زد اور رسائی میں ہے مگر میں نے اس کی فوج کے دوسرے حصوں کو بھی پیش نظر رکھ کر دیکھا ہے کہ ہم اس کے دائیں پہلو پر حملہ کریں گے تو سلطان ایوبی فوج کے دوسرے حصوں کو کس طرح استعمال کرے گا''۔

''وہ ہمیں گھیرے میں لینے کی کوشش کرے گا''…… مظفرالدین نے کہا…… ''گھیرائو وسیع رکھے گا، ہمیں گھمائے پھرائے گا اور گھیرا تنگ کرتا جائے گا۔ میں اس کی چالوں کے متعلق پیش گوئی کرسکتا ہوں''۔

''صلاح الدین ایوبی نے محفوظہ کے ان دستوں کو جن سے اس نے ہمارے قلب پر حملہ کیا اور کامیابی حاصل کی ہے پھر سے سمیٹ لیا اور اگلے دستوں سے ایک کوس پیچھے تیار رکھا ہوا ہے۔ آپ ٹھیک سمجھے ہیں کہ سلطان ایوبی ہمارے حملہ آور دستوں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کرے گا۔ میں قبروں کا جو ذکر کررہا تھا، وہ بے معنی نہیں تھا۔ سلطان ایوبی کا دایاں بازو جس جگہ ہے اس سے ڈیڑھ ایک کوس پیچھے ہماری اور ایوبی کی فوج کی لاشوں کے لیے قبریں کھودی گئی ہیں۔ ان کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ ہوگی۔ یہ ڈیڑھ ہزار گڑھے ہیں۔ آپ قبر کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی سے واقف ہیں۔ آپ ایسی سمت سے حملہ کریں کہ ایوبی کے دستے پیچھے ہٹیں۔ آپ انہیں قبروں کے قریب لے جائیں۔ دست بدست لڑنے کے بجائے تیروں کا اندھا دھند استعمال کریں اور انہیں مجبور کردیں کہ قبروں پر چلے جائیں۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ گھوڑے کھلی ہوئی قبروں میں کس طرح گریں گے۔ ان میں سے جن قبروں میں لاشیں اتار کر ان پر ڈھیریاں بنا دی گئی ہیں، وہ بھی ان کے لیے رکاوٹ بنیں گی''۔

''ایوبی کے دائیں بازو کی قوت کتنی اور کس قسم کی ہے؟''…… مظفرالدین نے پوچھا۔

''کم از کم ایک ہزار سوار اور ڈیڑھ ہزار پیادے ہیں''…… جاسوس کمان دار نے جواب دیا…… ''یہ دستے تیاری کی حالت میں ہیں۔ آپ انہیں بے خبری میں نہیں لے سکتے''…… اس نے اس نقشے پر جو مظفرالدین کے آگے پڑا تھا، ایک جگہ انگلی رکھ کر کہا…… ''یہ ہے دشمن (ایوبی) کا دایاں بازو، میرے اندازے کے مطابق اس کا پھیلائو آٹھ سو قدم ہے۔ اس کے سامنے کی زمین گڑھوں والی ہے۔ نیچی نیچی گول گول ٹیکریاں بھی ہیں۔ اس کے دائیں کا علاقہ صاف ہے۔ حملے کے لیے یہ راستہ موزوں نظر آتا ہے۔ مگر حملہ سامنے سے کیا جائے۔ دشمن پیچھے ہٹے گا''۔

''میرا حملہ سامنے کے بے کار راستے سے بھی ہوگا، دائیں جانب سے صاف راستے سے بھی''…… مظفرالدین نے کہا…… ''میں قبروں کے گڑھوں اور ڈھیریوں کو استعمال کروں گا''…… اس نے اپنے نائب سالار سے کہا…… ''کوئی بھی آدمی کہیں بھی نظر آئے اسے پکڑ لو۔ یہ علاقہ جنگ کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ ادھر سے کوئی مسافر نہیں گزرے گا۔ ادھر سے وہی گزرے گا جو جاسوس ہوگا''۔

دو مسافروں کو شاید معلوم نہیں تھا کہ یہ علاقہ جنگ کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ ایک اونٹ پر سوار تھا۔ وہ بوڑھا تھا۔ اس کی داڑھی سفید تھی۔ اونٹ پر کچھ سامان بھی لدا ہوا تھا۔ دوسرے نے اونٹ کی مہار پکڑ رکھی تھی۔ وہ دونوں دیہاتی لباس میں تھے۔ وہ اس جگہ سے گزر رہے تھے جہاں سے مظفرالدین کے چھپے ہوئے دستے نظر آرہے تھے۔ ایک فوجی نے انہیں پکارا۔ وہ نہ رکے۔ ان کی رفتار تیز ہوگئی۔ ایک گھوڑ سوار ان کے پیچھے گیا تو وہ رک گیا۔ سوار نے انہیں ساتھ چلنے کو کہا۔

''ہم مسافر ہیں''…… جوان آدمی نے کہا…… ''آپ کا کیا بگاڑا ہے؟ ہمیں جانے دیں''۔

''حکم ہے کہ یہاں سے جو گزرے اسے روک لیا جائے''…… گھوڑ سوار نے کہا اور انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔

انہیں ایک خیمے کے سامنے جاکھڑا کیا اور خیمے میں اطلاع دی گئی۔ ایک کمان دار باہر آیا۔ اس نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جارہے ہیں۔ انہوں نے جو جواب دیا، اس سے کمان دار مطمئن ہوگیا لیکن اس نے انہیں بتایا کہ انہیں آگے نہیں جانے دیا جائے گا۔ انہیں عزت سے رکھا جائے گا، قید میں نہیں۔ ان کے اس سوال کا جواب نہ دیا جاسکا کہ انہیں کب تک یہاں رکھا جائے گا۔ یہ پہلے مسافر تھے جنہیں مظفرالدین کے حکم کے مطابق روکا گیا تھا۔ انہیں دو سپاہیوں کے حوالے کرکے کہا گیا کہ وہ ان کے خیمے میں رہیں گے۔ ان کی کسی نے نہ سنی۔

انہیں جس خیمے میں رکھا گیا، وہاں یہی دو سپاہی رہتے تھے۔ رات کو سپاہی سو گئے۔ سفید ریش بوڑھا جاگ رہا تھا۔ خیمے میں اندھیرا تھا۔ بوڑھے نے خراٹوں سے اندازہ کیا کہ دونوں سپاہی سو گئے ہیں۔ اس نے اپنے ساتھی کو ٹھوکر ماری۔ دونوں لیٹے لیٹے سرکنے لگے۔ جب خیمے کے دروازے تک پہنچے تو باہر کو سرک گئے۔ ) باہر خاموشی تھی۔ خیمے سے کچھ دور جاکر بوڑھے نے اپنے ساتھی سے کہا کہ وہا س سے الگ ہوجائے اور کسی اور سمت سے خیمہ گاہ سے باہر نکلے۔ دونوں الگ ہوگئے۔، ان کی یہ توقع پوری نہ ہوئی کہ وہاں سارا کیمپ سویا ہوا ہوگا۔ سنتری جاگ رہے تھے۔ ایک سنتری نے اندھیرے میں سائے کو حرکت کرتے دیکھا تو اسے بلانے کے بجائے اس کے پیچھے چل پڑا۔

وہ بوڑھا تھا۔ اس نے سنتری کو دیکھ لیا اور وہ کہیں چھپ گیا۔ سنتری آیا۔ اسے ڈھونڈنے لگا وہاں کچھ سامان پڑا تھا۔ اس ڈھیر میں کہیں چھپا رہا، پھر اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے دبے پائوں نکل گیا۔ بالکل اسی طرح ایک اور سنتری نے اس کے ساتھی کو دیکھ لیا۔ مظفرالدین نے جاسوسوں پر نظر رکھنے اور انہیں پکڑنے کے بڑے ہی سخت احکام دے رکھے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ سلطان ایوبی کے جاسوس بہت تیز اور ہوشیار ہیں۔ چنانچہ مظفرالدین نے اس کے جاسوسوں کو پکڑنے کے لیے خاص قسم کی ہدایات دی تھیں، انہی ہدایات کے مطابق سنتری بوڑھے اور اس کے ساتھی کو پکارتے نہیں تھے، ان کا تعاقب کررہے تھے۔

بوڑھے کا ساتھی بھی چھپ گیا۔ ادھر بوڑھا بھی ایک سنتری کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ تھوڑی دیر بوڑھا اور ایک جگہ چھپا۔ سنتری اس کے پیچھے آرہا تھا۔ سنتری غلط فہمی میں آگے نکل گیا۔ بوڑھے نے خنجر نکال لیا۔ اس نے ارادہ کرلیا تھا کہ وہ اس سنتری سے نجال حاصل کرنے کے لیے اسے خنجر سے ہلاک کردے گا۔ بوڑھا اٹھا۔ ابھی دیکھ ہی رہا تھا کہ کدھر کو نکلے کہ اچانک ایک آدمی اس کے قریب آرکا۔ بوڑھے نے ذرہ بھر توقف نہ کیا۔ خنجر اس آدمی کے دل میں اتار دیا۔ فوراً بعد دوسرا وار کیا۔ اس آدمی کے منہ سے آواز نکلی اور خاموش ہوگئی۔ وہ آدمی گر پڑا۔

: بوڑھا وہاں سے بھاگنے کی راہ دیکھ رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے اسے دبوچ لیا۔ بوڑھے نے جسم کو اتنی زور سے جھٹکا دیا کہ اسے دبوچنے والا اس سے الگ ہوکر گرا۔وہ تیز بھاگا مگر کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ اس نے جسے گرایا تھا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ وہ تیز دوڑا اور بوڑھے کو پیچھے سے پکڑ لیا، ساتھ ہی اس نے شور مچا دیا۔ مشعلیں جل اٹھیں۔ تین چار سنتری دوڑے آئے۔ انہوں نے مشعلوں کی روشنی میں دیکھا کہ یہ تو کوئی سفید ریش بزرگ ہے مگر ان سب سے آزاد ہونے کے لیے ایسی پھرتی اور ایسی طاقت کا مظاہرہ کررہا تھا جو اس عمر میں کم ہی کسی انسان میں ہوتی ہے۔ وہ اکیلا تھا۔ سنتری زیادہ تھے، وہ ان سے آزاد نہ ہوسکا مگر اس کی کوشش میں اس کی سفید داڑھی اتر کر گر پڑی۔ سب نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر چھوٹی چھوٹی سیاہ داڑھی تھی جو سلیقے سے تراشی ہوئی تھی اور وہ ایک جوان آدمی تھا۔ سفید داڑھی مصنوعی تھی۔

اسے پکڑ کر اس جگہ لے گئے جہاں اس نے ایک سنتری کو خنجر کے دو وار کرکے مار ڈالا تھا۔ مشعل کی روشنی میں سب نے دیکھا کہ وہ کوئی سنتری نہیں بلکہ اسی آدمی کا ساتھی تھا۔ وہ مرچکاتھا۔ اس آدمی نے جو سفید داڑھی لگا کر بوڑھا بنا ہوا تھا، اپنے ہی ساتھی کو سنتری سمجھ کر ہلاک کردیا تھا۔ یہ دونوں ساتھی الگ الگ ہوکر کیمپ سے نکلنے کی کوشش کررہے تھے مگر سنتریوں نے انہیں دیکھ لیا۔ یہ دونوں تعاقب سے بچنے کی کوشش میں اکٹھے ہوگئے۔ سفید داڑھی والے نے اسے سنتری سمجھا اور نہایت عجلت میں اسے خنجر سے مارڈالا۔ لاش کی تلاشی لی گئی۔ اس کے کپڑوں کے اندر سے خنجر بآمد ہوا۔ ان کے اونٹ پر جو سامان تھا، وہ کھول کر دیکھا گیا تو کوئی سامان نہیں تھا۔ بوریوں میں گھاس پھونس بھر کر سامان کا دھوکہ دیا گیا تھا۔

اس آدمی کو ایک نائب سالار کے خیمے میں لے گئے۔ نائب سالار جاگ اٹھا۔ اس نے اس آدمی سے بہت کچھ پوچھا لیکن اس نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اس کی سفید داڑھی جو اس کے چہرے سے اتری تھی، نائب سالار کو دکھائی گئی۔ اس کے متعلق بھی اس نے خاموشی اختیار کی مگر یہ ایسے ثبوت تھے جنہیں وہ جھٹلا نہیں سکتا تھا۔ اسے کہا گیا کہ وہ تسلیم کرلے کہ وہ سلطان ایوبی کا جاسوس ہے اور اس کا ساتھی بھی جاسوس تھا۔ اس نے یہ الزام تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اسے مارا پیٹا گیا۔ بہت پریشان کیا گیا لیکن اس نے اعتراف نہ کیا کہ وہ جاسوس ہے۔ رات گزر گئی۔

صبح اسے مظفرالدین کے سامنے لے جایا گیا اور اسے رات کا واقعہ سنایا گیا۔ اس کی مصنوعی داڑھی اور اس کے اونٹ کا سامان بھی مظفرالدین کے آگے رکھا گیا۔

''علی بن سفیان کے شاگرد ہو یا حسن بن عبداللہ کے؟''…… مظفرالدین نے اس سے پوچھا۔ (علی بن سفیان سلطان ایوبی کی ملٹری انٹیلی جنس کا سربراہ اور حسن بن عبداللہ اس کا نائب تھا)۔

''میں ان دونوں میں سے کسی کو نہیں جانتا''…… ملزم نے جواب دیا۔

: ''میں جانتا ہوں ان دونوں کو''…… مظفرالدین نے کہا…… ''میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا شاگرد ہوں، استاد اپنے شاگرد کو دھوکہ نہیں دے سکتا''۔

''میرا آپ کے ساتھ اور سلطان ایوبی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں''…… ملزم نے جواب دیا۔

''سنو میرے بدقسمت دوست!''…… مظفرالدین نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ''میں تمہارے ساتھ بحث نہیں کروں گا۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ تم نالائق اور نکمے ہو۔ تم نے اپنا فرض خوش اسلوبی سے ادا کیا ہے۔ پکڑا جانا کوئی عیب نہیں۔ تمہاری بدقسمتی کہ تمہارا ساتھی تمہارے ہی ہاتھوں مارا گیا ہے۔ مجھے صرف یہ بتا دو کہ تمہارا کوئی ساتھی یہاں سے ہوگیا ہے اور وہ ایوبی کو اطلاع دے چکا ہے کہ اس جگہ فوج ہے؟ اور یہ بتا دو کہ اس وقت تمہاری فوج کی ترتیب کیا ہے اور دستے کہاں کہاں ہیں۔ ان سوالوں کا جواب دو اور میں تمہارے ساتھ قرآن کے نام پر وعدہ کرتا ہوں کہ جنگ ختم ہوتے ہی تمہیں رہا کردوں گا۔ اس وقت تک پوری عزت سے تمہیں اپنے پاس رکھوں گا''۔

''مجھے آپ کی قسم پر اعتبار نہیں''…… ملزم نے کہا…… ''کیونکہ آپ قرآن سے منحرف ہوچکے ہیں''۔

''کیا میں مسلمان نہیں؟''…… مظفرالدین نے تحمل سے کہا۔

''آپ یقینا مسلمان ہیں''…… ملزم نے جواب دیا…… ''لیکن آپ قرآن کے نہیں صلیب کے وفادار ہیں''۔

''میں اپنی توہین اس شرط پر برداشت کرلوں گا کہ میں نے جو پوچھا ہے، وہ مجھے بتا دو''…… مظفرالدین نے کہا…… ''تمہاری جان میرے ہاتھ میں ہے''۔

''آپ خدا کے ہاتھ سے میری جان چھین نہیں سکتے''…… ملزم نے کہا…… ''آپ ہماری فوج میں رہ چکے ہیں، آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہماری فوج کا ہر سپاہی اپنی جان خدا کے سپرد کرچکا ہے۔ میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ میں اپنی فوج کا جاسوس ہوں اور میرا ساتھی بھی جاسوس تھا۔ میں آپ کے کسی اور سوال کا جواب نہیں دوں گا۔ میں زندہ ہوں، میری کھال اتارنی شروع کردیں۔ میرے منہ سے اپنے سوالوں کا جواب نہیں سن سکو گے…… اور میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ شکست آپ کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے''۔

''اس کے ٹخنوں میں رسی ڈالو اور اس درخت کے ساتھ الٹا لٹکا دو''…… مظفرالدین نے ایک درخت کی طرف اشارہ کرکے حکم دیا اور اپنے خیمے میں چلا گیا۔

٭ ٭ ٭

''وہ دونوں ابھی تک نہیں آئے''…… حسن بن عبداللہ سلطان ایوبی سے کہہ رہا تھا…… ''ان کے پکڑے جانے کا تو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ہمارے جاسوسوں کو یہاں پکڑنے والا کون ہے۔ انہیں بہت دور بھی نہیں جانا تھا''۔

''ہوسکتا ہے، وہ پکڑے گئے ہوں''…… سلطان ایوبی نے کہا…… ''وہ جو صبح کے گئے ہوئے شام کے بعد تک نہیں آئے، وہ پکڑے گئے ہوں گے۔ ان کا نہ آنا ظاہر کرتا ہے کہ یہاں پکڑنے والے موجود ہیں۔ آج رات کچھ آدمی اور بھیج دو اور ذرا دور کے علاقے کی دیکھ بھال کرائو''۔

وہ انہی دونوں جاسوسوں کے متعلق بات کررہے تھے۔ سلطان ایوبی نے ہمیشہ اپنے جاسوسی کے نظام پر بھروسہ کیا اور دشمن کو اسی نظام کی رہنمائی میں ناکوں چنے چبوائے تھے مگر اب اس کا یہ نظام اس کے لیے بے کار ہوتا جارہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا مدمقابل اس کا شاگرد مظفرالدین تھا۔گزشتہ رات سلطان ایوبی کے ایک جاسوس کی لاش ترکمان سے کچھ دور ویرانے میں پڑی ملی تھی۔ اس کے پہلو میں تیر اترا ہوا تھا۔ مظفرالدین نے اپنے نائب سالاروں سے کہا تھا… ''اگر تم صلاح الدین ایوبی کے جاسوسوں کے خلاف اقدام کرسکو تو وہ اندھا اور بہرہ ہوجائے۔ پھر تم اسے شکست دینے کی سوچ سکتے ہو''…… اب سلطان ایوبی کے دو اور جاسوس لاپتہ ہوگئے تھے۔ سلطان ایوبی ان دونوں واقعات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کے حکم پر حسن بن عبداللہ نے چھ چھاپہ مار جاسوس روانہ کردئیے۔

صبح کی اذان کی پہلی اللہ اکبر گونجی تو سلطان ایوبی کی آنکھ کھلی…… وہ خیمے سے باہر نکلا تو اس کے خادم نے مشعل جلا کر اس کے خیمے کے آگے رکھ دی۔ ادھر سے ایک گھوڑ سوار گھوڑا دڑاتا آیا۔ سلطان ایوبی کے سامنے رک کر وہ گھوڑے سے اترا اور کہا۔ ''سلطان کا اقبال بلند ہو۔ اپنے دائیں پہلو کے علاقے کے سامنے کسی فوج کی حرکت سنی گئی ہے۔ دیکھ بھال کے لیے دو آدمی آگے گئے تھے۔ انہوں نے تصدیق کی ہے کہ فوج آرہی ہے''۔

: سلطان ایوبی نے مرکزی کمان کے سالاروں کے نام لے کر کہا کہ انہیں فوراً بلائو۔ وہ زمین پر بیٹھ گیا اور تیمم کیا۔ اس کے پاس وضو کے لیے وقت نہیں تھا۔ وہیں قبلہ رو ہوکر اس نے مصلے بچھائے بغیر نماز پڑھی۔ مختصر الفاظ میں دعا مانگی اور اپنا گھوڑا منگوایا۔

''یہ مظفرالدین کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا''…… سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں سے کہا…… ''یہ صلیبی نہیں ہوسکتے۔ ان کے آنے کی سمت یہ نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ اطلاع صحیح ہے کہ دشمن ہمارے دائیں پہلو کے دستوں کے سامنے اور دائیں سے آرہا ہے تو خیال رکھنا، یہ دو طرفہ حملہ ہوگا۔ اپنے کسی دستے کو پیچھے نہ ہٹنے دینا۔ پیچھے ڈیڑھ ہزار قبروں کے گڑھے ہیں۔ تمام لاشوں کو ابھی دفن نہیں کیا گیا۔ یہ گڑھے ہمارے سواروں کی قبریں بن جائیں گے''۔

سلطان ایوبی گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس کے محافظ دستے کے بارہ محافظ اس کے پیچھے چل پڑے۔ وہ سوار تھے۔ اس نے آدھی درجن تیز رفتار سوار قاصد بھی ساتھ لے لیے تھے اور ساتھ دو سالار بھی تھے۔ اس نے گھوڑے کو ایڑی لگا دی اور ایک ایسی چٹان پر جا چڑھا، جہاں سے وہ اپنے دائیں بازو کے سامنے کا علاقہ اور اپنے دستوں کو دیکھ سکتا تھا۔ صبح کا دھندلکا چھٹنے لگا تھا۔ وہ چٹان سے اترا اور دائیں بازو کے دستوں کے کمان داروں کو بلا کر حکم دیا کہ سواروں کو گھوڑوں پر سوار کردو اور پیادہ دستوں کے تیر اندازوں کو سامنے والے علاقے کے کھڈوں میں اور بلندیوں کے پیچھے مورچہ بند ہونے کو دوڑا دو۔

''اب سے دائیں پہلو کے دستوں کی اعلیٰ کمان میرے پاس ہوگی''…… اس نے کمان داروں اور نائب سالاروں سے کہا…… ''اپنے قاصد اپنے ساتھ رکھ لو اور میرے ساتھ رابطہ رکھو''۔

سلطان ایوبی کی ٹریننگ میں نقل وحرکت کی برق رفتاری پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ کسی چال کے حکم کی تعمیل حیران کن رفتار سے ہوتی تھی۔ مظفرالدین کی فوج ابھی اتنی قریب نہیں آئی تھی کہ سلطان ایوبی کے دستوں کی حرکات دیکھ سکتی۔

٭ ٭ ٭

مظفرالدین نے گھوڑ سواروں سے حملہ کیا، جوں ہی اس کا پہلا سوار دستہ سلطان ایوبی کے دستوں کے سامنے والے علاقے میں آیا اس کی ترتیب خراب ہوگئی کیونکہ وہاں کھڈ اور ڈھیروں کی طرح نیکریاں تھیں۔ ان کھڈوں میں سلطان ایوبی کے تیر انداز بیٹھ گئے تھے۔ انہوں نے اپنے قریب سے اور اپنے اوپر سے گزرتے اور سرپٹ دوڑتے گھوڑوں پر تیر برسانا شروع کردئیے۔ سوار گرنے لگے جس گھوڑے کو تیر لگتا تھا وہ بے لگام ہوکر ادھر ادھر بھاگنے دوڑنے لگتا تھا۔ یہ تو ہر معرکے میں ہوتا تھا۔ مظفرالدین کے لیے یہ صورت حال عجیب نہیں تھی۔ البتہ اسے یہ پریشانی ہوئی کہ اس کی توقع کے خلاف سلطان ایوبی کے دائیں بازو کے دستے بیدار تھے اور مقابلے کے لیے تیار۔ اس یلغار میں سلطان ایوبی کے بے شمار تیر انداز کچلے گئے۔ اس قربانی سے سلطان ایوبی نے یہ فائدہ حاصل کیا کہ مظفرالدین کے حملے کی شدت ختم ہوگئی۔ اب سلطان ایوبی جم کر لڑ سکتا تھا۔ مظفرالدین یہ جو توقع لے کر حملہ آور ہوا تھا کہ وہ اچانک آپڑے گا اور سلطان ایوبی کو وہ اپنی چالوں کا پابند کرکے اسے میدان جنگ میں اپنی پسند کے مطابق لڑاتا رہے گا، اس کی یہ توقع ختم ہوگئی تھی۔

سلطان ایوبی اپنی چالیں چلنے کے لیے آزاد تھا۔ اس کے چند ایک تیراندازوں نے مظفرالدین کے گھوڑوں کے قدموں میں بیٹھ کر جانیں قربان کردی تھیں، لیکن اپنے سلطان کو وہ بڑا ہی قیمتی جنگی فائدہ دے گئے تھے۔ مظفرالدین حملہ آور دستہ کئی ایک گھوڑے اور ان کے سوار مروا کر آگے نکل آیا۔ آگے سلطان ایوبی خود تھا۔ اس نے حملہ آوروں کا پھیلائو دیکھا تو اس کے مطابق اپنے سواروں کو ایک حکم دے دیا۔ حملہ آور قریب آئے تو سلطان ایوبی کے بائیں سواروں نے گھوڑے بائیں کو موڑے اور ایڑی لگا دی۔ دائیں کے سواروں نے بھی ایسا ہی کیا۔ حملہ آوروں کے سامنے کوئی مزاحمت نہ رہی۔ مزاحمت کرنے والے دائیں اور بائیں بھاگ گئے تھے۔

حملہ آوروں کے کچھ گھوڑے دائیں کو مڑے کچھ بائیں کو۔ زیادہ تر ناک کی سیدھ میں چلے آئے۔ سلطان ایوبی کے دائیں بائیں کو بھاگنے والے سواروں نے اندر کو گھوڑے موڑے۔ اب حملہ آوروں کے گھوڑوں کے پہلو ان کے سامنے تھے۔ انہوں نے ایڑی لگا دی…… دونوں طرف سے سواروں نے ہلہ بولا تو ان کی برچھیوں کا کوئی وار خالی نہ گیا۔ حملہ آور تو آگے کو دوڑے جارہے تھے۔ وہ اپنے پہلوئوں کی حفاظت کرنے کے قابل ہی نہیں تھے۔



👑 سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور کی کہانیوں پر مشتمل تاریخی سلسلہ جاری ہے۔ ‼️🇨>>


طالب دعا عبدالحق قاسمی03151095631

❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️💚❤️

اتوار، 8 اگست، 2021

yakam muharram ka amal

0 Comments


 *بسم اللہ الرحمن الرحیم* 

*یکم محرم کا عمل*
کسی کے اوپر جادو ہو، جسمانی بندش،عداوت،نفرت، نظر بد،نکاح کی  بندش۔کاروباری بندش ،اولاد کی  بندش،میاں بیوی میں ناچاکیاں ،گھر میں عداوت کا تعویز، ان جیسے مسئلوں کے لیے یکم محرم کا ایک خاص عمل پیش خدمت ہے 
عمل یہ  ہے:
*اول آخر درود پاک*
*آیت الکرسی 360 بار،* 
*یا قہار 313 بار*
پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ظہر کے نماز کے بعد  کمرے میں اکیلے ہوں، عمل کے دوران کسی سے بات نہیں کرنی ہے، عمل سے پہلے یہ کہنا ہےکہ یااللہ  عزوجل میرے اوپر جتنے بھی اثر ہیں اس کو دور فرما ، اس کے بعد عمل شروع کریں۔جس پے جادو کا اثر ھو عمل کرنے کے دوران جسم پہ بوجھ محسوس کریگا ۔
*✏ابو نعمان المدنی* 
29ذوالحجہ 1440ھجری

پیر، 26 جولائی، 2021

Agar kisi na mehram par achanak nazar parh jae to?

0 Comments

 


🍁*فطری طور پر ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ جس ماحول میں وہ رہتا ہے وہ پاک و پاکیزہ ہو۔*🍁

____________________________

فطری طور پر ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ جس ماحول میں وہ رہتا ہے وہ پاک و پاکیزہ ہو۔ ہر قسم کی برائی اور بے حیائی سے پاک ہو،پرسکون ہو۔ہر صاحب عقل کی یہ خواہش ہوتی ہےکہ وہ خود بھی اوراسکی اولادبھی بےحیائی سےمحفوظ رہے کیونکہ عفت اور پاک دامنی انسانی فطرت کی آواز ہے۔

اسلامی نکتہ نظر سے انسان اپنی انفرادی زندگی میں اگر اپنی جنسی خواہشات کو اپنی ہمسر تک محدود رکھے تو وہ خود بھی پاکیزہ رہے گا اور معاشرہ بھی بے حیائی سے پاک ہوجائے گا۔ چونکہ معاشرہ افراد سے تشکیل پاتا ہے۔ لوگوں سے ہٹ کر اس کا کوئی الگ سے وجود نہیں ہے۔ لہٰذا جب اس میں بسنے والے افراد صحیح ہوجائیں تو معاشرہ خود بخود صحیح ہوجائے گا۔ افراد پاک ہوجائیں تو معاشرہ بھی پاک ہوجائے گانیز اس سے ازدواجی رشتہ بھی مضبوط ہوجاتا ہے۔ خاندان اور گھرانہ ٹوٹنے سے محفوظ رہتا ہے۔ انسان کی اجتماعی زندگی کا اہم ترین رکن اس کا گھرانہ ہے۔ اگر گھر کا ماحول صحیح ہے تو اجتماعی زندگی صحیح ہے۔ اگر جنسی میلانات اپنے گھر تک محدود رہیں تو گھر مضبوط اور ازدواجی زندگی پائیدار ہوگی۔ 

اگر جنسی بے راہ روی عام ہوجائے، معاشرے اور ماحول میں رائج ہوجائے، لوگ اسے ناپسند خیال نہ کریں تو جوان افراد گھر بسانے کے متعلق سوچیں گے بھی نہیں۔ جب خواہشات پوری ہورہی ہیں تو بیوی کی ذمہ داری لینے کی کیا ضرورت۔ اسی جنسی بے راہ روی سے بنے ہوئے گھر بکھر جاتے ہیں۔

دوسری طرف عفت و پاکدامنی گھروں کو مضبوط بنادیتی ہے۔ انسان کو معزز اور معتبر بنا دیتی ہے۔ وہ افراد جو ہوا و ہوس اور جنسی خواہشات میں مگن ہوجاتے ہیں لوگوں کے نزدیک قابل وثوق نہیں رہتے۔ امیرالمومنین فرماتے ہیں:

جس کے اردگرد پاکیزگی ہو گی اس کے اوصاف اچھے ہوں گے۔ پاکیزگی اورپاکدامنی کو بہترین عبادت قرار دیا گیا ہے۔ امیرالمومنین فرماتے ہیں: افضل العبادۃ العفاف.

بہترین عبادت پاکدامنی ہے۔

اس کے مقابلے میں بے حیائی کو شیطانی فکر کہا گیاہے۔

اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآءِ o

شیطان تمھیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کاحکم دیتا ہے۔

جبکہ خدا بے حیائی سے روکتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَ یَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ وَ الْبَغْیِo

یقیناً اللہ عدل، نیکی، قرابتداروں کا حق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برے کاموں اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔

ایک اور مقام پر فرماتا ہے:

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ o

کہہ دیجیے میرے پروردگار نے ہر قسم کی اعلانیہ اور پوشیدہ بے حیائی کو حرام قرار دیا ہے۔

فحش کی تعریف کرتے ہوئے راغب اصفہانی کہتے ہیں:

الفحش ماعظم قبحہ من الافعال والاقوال

ہر بری شے کو فحش کہتے ہیں چاہے اس کا تعلق فعل سے ہو یا قول سے۔ اس فحش کا اہم ترین مصداق زنا کو قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر فاحشہ سے مراد زنا لیا گیا۔ مثلاً

وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃo

وہ لوگ جو زنا کے مرتکب ہوئے ہیں۔

وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنآی اِنَّہ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَآءَ سَبِیْلًاo

اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یقیناً یہ بہت بڑی بے حیائی اور بہت برا راستہ ہے۔

احادیث میں بھی زنا کی سخت مذمت کی گئی ہے۔

رسول خدا﴿ص﴾ فرماتے ہیں:

من زنی خرج منہ الایمان o

زنا صرف خاص جنسی تعلق میں محدود نہیں ہے بلکہ انسان کا ہر عضو زنا کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ رسول خدا فرماتے ہیں:

علیٰ کل نفس من بنی آدم کتب حظہ من الزنا ادرک ذلک لا محالۃ فالعین زنا ھا النظر والاذان زنا ھا السماع والیدزنا ھا البطش و الرجل زناھا المشی واللسان زناہ الکلام والقلب یھوی ویتمنی۔

انسان کے ہر عضو کا زنا ہے وہ اسے پا لے گا۔ آنکھ کا زنا(غیر محرم کو) دیکھنا کان کا زنا باتیں سننا، ہاتھ کا زنا چھونا، پاؤں کا زنا(غیر محرم) کی طرف جانا، زبان کا زنا گفتگو کرنا جبکہ دل اس کی خواش اور تمنا کررہا ہو۔

🍁  🍁 

نگاہِ حرام…….اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی زندگی نگاہ و نظر کے ساتھ منسلک ہے، نکاح، کاروبار، دوستی اور دشمنی سب نگاہ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ فیصلے کرنے میں نظر کا اہم کردار ہوتا ہے۔ انسان دیکھنے اور سننے کی تاثیر سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ایک خوبصورت منظر اور سبز زار کو دیکھ کر، نیلگوں پانی سے ابلتے چشموں اور جھیل کو دیکھ کر دل میں فرحت محسوس کرتا ہے۔ کریہہ منظر کو دیکھ کر اہت محسوس کرتا ہے۔کیسے ممکن ہے انسان ایک خوبصورت اور جوان لڑکی کو دیکھے اور اس کے دل میں ہیجان پیدا نہ ہو۔

امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ نظر عقل کی نگہبان اور دل کی جاسوس ہوتی ہیں۔ آنکھیں اپنے مشاہدات کو عقل و دل تک پہچانتی ہیں پھر دل فیصلہ کرتا ہے۔ دل اس کے مشاہدات سے ہیجان انگیز ہوجاتا ہے۔ 

امام صادق فرماتے ہیں:

النظرۃ بعدالنظرہ تزرع فی القلب الشھوۃ وکفی بھا لصاحبھا فتنۃ۔

ایک کے بعد دوسری نگاہ انسان کے دل میں شہوت کا بیچ بوتی ہے اور یہی اس کی ہلاکت کے لیے کافی ہے۔

حرام نگاہ صحیح فیصلے کی قوت قلب کو سلب کر دیتی ہے۔ اکثر جنسی انحرافات کی ابتدا دیکھنے سے ہوتی ہے۔ یہ اثرات عورت کا مرد اور مرد کا عورت کو دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے قرآن نے اس سے منع کردیا ہے۔

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْربِمَا یَصْنَعُوْنَ O وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوبِہِنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ اَوْ اٰبَآءِہِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُولَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُولَتِہِنَّ اَوْ اِِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِہِنَّ اَوْ نِسَآءِہِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُوْلِی الْاِِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِ وَلاَ یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ وَتُوْبُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo

مومنین سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کریں کہ یہی زیادہ پاکیزہ بات ہے۔ بے شک اللہ ان کے کاموں سے خوب واقف ہے اور مومنات سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہوں کونیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں مگر جو ظاہر ہو اور اپنے دوپٹہ کو اپنے گریبانوں پر رکھیں اور اپنی زینت کو اپنے شوہر، باپ دادا۔۔۔اور وہ بچے جو عورتوں کی شرمگاہوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ان سب کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریں اور اپنے پاؤں پٹخ کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوجائے۔

رسول﴿ص﴾ فرماتے ہیں:

ان النظر سھم من سھام ابلیس مسموم من ترکھا مخافتی ابدالتہ ایمانا یحد حلاوتھا فی قلبہ o

غیر محرم کی طرف دیکھنا شیطان کا ایک زہریلا تیر ے جو میرے خوف سے اسے ترک کردے گا میں اسے ایمان میں بدل دوں گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ 🍁  🍁 

غیر محرم سے گفتگو...   اگرچہ مرد عورت کا ایک دوسرے سے بات کرنا حرام نہیں ہے لیکن غیر ضروری گفتگو اور ہنسی مذاق سے منع کیا گیا ہے۔

ابی بصیر کہتے ہیں کہ کوفہ میں ایک خاتون مجھ سے قرآن پڑھتی تھی۔ ایک دن میں نے اس سے مذاق کیا۔ تھوڑے دنوں بعد مجھے مدینہ جانا پڑا۔ وہاں امام محمد باقر﴿ع﴾ سے شرف ملاقات حاصل ہوا۔ آپ نے میری سرزنش کی میں بہت شرمندہ ہوا۔ امام نے فرمایا آئندہ ایسا نہ کرنا۔(۱۴)

رسول خدا﴿ص﴾ فرماتے ہیں:

جو شخص کسی غیر محرم سے ہنسی مذاق کرتا ہے خدا ہر لفظ کے بدلے اسے ہزار سال دوزخ میں رکھے گا۔ اسی طرح جو عورت نا محرم سے مذاق کرے گی۔o

غیر محرم کو چھونا…نامحرم کو چھونا اگرچہ چند لمحوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو اسے حرام قرار دیا ہے۔ اسے گناہہ کبیرہ کہا ہے حتیٰ کہ مصافحہ کرنے سے بھی منع کیا ہے چاہے وہ اس کی رشتہ دار ہو اور قصد لذت نہ بھی ہو۔

رسول اللہ فرماتے ہیں:

من صافح امرأۃ حراماً جاء یوم القیامۃ مغلولا ثم تو مربہ الی النارo

جونامحرم سے مصافحہ کرے گا اسے قیامت کے دن زنجیروں میں جکڑ کر لایا جائے گا پھر اسے جہنم میں لے جانے کا حکم دیا جائے گا۔

مخلوط محفلین….رسول (س)فرماتے ہیں نامحرم مرد و عورت کے درمیان فاصلہ رکھو کیونکہ ان کے اختلاط سے ایسی مصیبتوں اور بلاؤں کا شکار ہوجاؤ گے کہ جن کی کوئی دوا نہیں ہے۔ لہٰذا اختلاط مرد وعورت سے اجتناب کرو۔ مزید فرماتے ہیں

ایما امرأۃ استعطرت فمرت علی قوم لیجدوامن ریحھا فھی زانیۃ o

جو عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے گزرتی ہے اور وہ اس کی خوشبو محسوس کرتے ہیں تو یہ بھی زانیہ کہلائے گی۔

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:  جب کوئی ایسی جگہ جاتا ہے جہاں اس کی نگاہ کسی مرد کی شرم گاہ پر پڑتی ہے یا عورت کے بالوں یا اس کے جسم کے کسی حصے پر پڑتی ہے تو خدا کے لیے سزاوار ہے کہ اسے جہنم میں ڈال دے۔

مزید فرماتے ہیں:

جو شخص خدا اورروز قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے اس جگہ جانے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے جہاں نامحرم کی سانسوں کی آواز آرہی ہو۔

🍁 🍁 

تنہائی میں مرد اور عورت کا ملنا…عورت اور مرد اگرچہ پاک دامن ہوں لیکن تنہائی میں مل جائیں تو بہت ممکن ہے کہ شیطانی وسوسے میں مبتلا ہوجائیں۔ ان کے مضبوط ارادے متزلزل ہوجائیں۔ شیطان کے جان میں پھنس جائیں اور غیر شرعی فعل کا ارتکاب کر بیٹھیں۔ اس لیے شریعت نے اس سے منع کیا ہے۔امیرالمومنین فرماتے ہیں:

تنہائی اور خلوت میں کبھی بھی مرد اور عورت اکٹھے نہ ہوں کیونکہ جب وہ تنہائی میں اکٹھے ہوتے ہیں تو تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے۔

اس قدر اس کی تاکید کی گئی ہے کہ حتیٰ کہ اس جگہ نماز پڑھنے سے منع کیا ہے جہاں غیر محرم موجود ہوں۔


گانا سننا...  عفت اور پاکدامنی کے لیے موسیقی اورگانا زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے رسول اللہ نے فرماتے ہیں العناء رقیۃ الزنا موسیقی زنا کی راہ ہموار کرتی ہے۔ زنا پر ابھارتی ہے۔ غیر محرم سے دوستی پر اکساتی ہے۔ کہتے ہیں کہ موسیقی وہ جادو ہے جو ناجائز تعلقات کا اسیر بنا دیتا ہے۔

امام باقر﴿ع﴾ فرماتے ہیں موسیقی اور گانے پر خدا نے جہنم کا وعدہ کیا ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّخِذَھَا ھُزُوًا اُولٰٓءِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌo

اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ نادانی میں لوگوں کو خدا کی راہ سے گمراہ کریں اور آیات الٰہی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

مختصر یہ کہ خدا نہ صرف برائی کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے بلکہ اس کی اشاعت کرنے والے کو بھی ناپسند کرتا ہے اور اسے عذاب الیم کی بشارت دیتا ہے۔

اِِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ o

وہ لوگ جو اہل ایمان کے درمیان بے حیائی کی اشاعت کو پسند کرتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے

🍁🍁

Eid ki Namaz Ka Tariqa

2 Comments

Eid Ki Namaz Ka Tariqa

 

Eid Ki Nama Ka Tariqa


*عیدالفطر کی نماز کا طریقہ*


  *پہلے نیت کریں اس طرح:*


💓 نیت کرتا ہوں میں دو رکعت نماز عیدالفطر کی،

زائد چھ تکبیروں کے ساتھ،

منہ میرا کعبہ شریف کی طرف،

واسطے اللہ تعالی کے،

پیچھے اس امام کے۔

🟢امام تکبیر کہ کر ہاتھ باندھ کر ثنا پڑھےگا ہمیں بھی تکبیر کہ کر ہاتھ باندھ لینا ہے

🟣 اس کے بعد تین زائد تكبيریں ہوں گی.

1️⃣. پہلی تکبیر کہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے

2️⃣ اسی طرح دوسری تکبیر كہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے

3️⃣ اب تيسری تکبیر کہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر باندھ لینا ہے

⚫ اس كے بعد امام قراءت کرےگا (یعنی سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے گا) اور رکوع، سجدہ کرکے پہلی رکعت مکمل ہوگی۔


🔘 دوسری رکعت کے لیے اٹھتے ہی امام قراءت کرے گا یعنی سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھےگا اس کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین زائد تكبيریں ہوں گی


1️⃣ پہلی تکبیر کہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے


2️⃣ دوسری تکبیر كہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے

 

3️⃣ تيسری تکبیر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دینا ہے


یہاں تک زائد تكبيریں مکمل ہوں گی.


🌹»» اب اس کے بعد بغیر ہاتھ اٹھاے تکبیر کہ کر رکوع میں جائیں گے.


🌹»» اور بس آگے کی نماز دوسری نمازوں کی طرح پڑھ کر سلام پھیرنا ہوگا.


*نماز عیدالفطر سے پہلے خوب شئیر کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نماز عید کا درست طریقہ معلوم ہو سکے۔*

    1.  *اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔*